Darad nagar se colmist Tehseen bukhari - Sanjh news

Breaking

Saturday, April 16, 2022

Darad nagar se colmist Tehseen bukhari

 


چاندنی رات میں

دریاکنارے کچاری۔

(درد نگر سے )

تحسین بخاری 


Press7828@ gmail.com

کشتی دریائے سندھ کے سینے پہ لہراتی بل کھاتی تیر رہی ھے .میں اس کشتی پرموجودھوں۔ھم جس جگہ موجود ھیں اس علاقے کو کچہ سبزاڑیں کہتے ہیں یہ ڈسٹرکٹ راجن پورکی تحصیل روجھان میں ھے سیاسی لحاظ سے یہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی میر دوست محمدمزاری کا حلقہ ھے ۔ہم سراج خان گوپانگ کے مہمان ھیں میرے ساتھ میرا بھتیجا سید علی اکبربخاری ۔بھانجا سید آصف بخاری ۔رئیس محمد اقبال اور دلجان چوہان بھی موجودہیں ۔کمال کابہترین تفریحی ماحول ھے مگر سپیشلی تفریح کیلیے نکلنےاور مکمل تفریحی ماحول ھونے کے باوجود میں اس سے لطف اندوزنہیں ھوپارھا کیونکہ میرے سامنے لاشیں پڑی ہیں ۔یہ لاشیں مہمان ہرندوں کی ہیں ۔جس طرح ھم سراج خان کے مہمان ہیں بالکل اسی طرح سائبیریا سےآئے یہ پرندے ھم سب کےمہمان تھے ۔مگر شاید ھم بے حس مہمان تھے محض وقتی لذت کی خاطر ھم نے بے زبان مہمانوں کا قتل عام کروایا۔قتل ھونا الگ بات ھوتی ھے مگرمسافری میں قتل ھونے کا درد بڑا ہی اذیت ناک ھوتا ھےاس درد کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس درد کو نواسہ رسول امام عالی مقام سے کوئ پوچھے ۔جس طرح امام حسین کو دھوکے سے کوفے بلا کرپورے خاندان اور ساتھیوں سمیت بےدردی سے شہید کیا گیا تھا بالکل اسی طرح دھوکے سے ان پرندوں کو قتل کیا جاتا ھے ۔پلاسٹک کے  بنے ھوئے پرندے بازار سے مل جاتے ہیں ان مصنوعی پرندوں کو دریا کے پانی میں چھوڑ دیا جاتا ھے ایک پرندے میں ٹیپ ریکارڈر فٹ کیا جاتا ھے جس میں پرندے کی آواز ریکارڈ کرکے چلائ جاتی ہے میلوں کی مسافت سے تھکے ھارے پرندے جب وہاں سے گزرتے ہیں تو یہ آواز انکے کانوں سے ٹکراتی ھے یہ نیچے دیکھتے ہیں تو انھیں پرندے نظر آتے ہیں لہذا یہ مسافر یہیں پر اترنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔جیسے ہی یہ اترنے لگتے ہیں تو سامنے گھات لگائے بیٹھا بے رحم شکاری ان پر فائر کھول دیتا ھے اور یہ پردیسی پکھی تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔کسی شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا.

(اوں نا سوچا پکھییں دی کیا بولی ھائ ۔

اوندے ہتھ بندوق۔بندق اچ گولی ھائ)

میں آج خود کو مجرم تصور کررھا ھوں ۔میں خود کو کوفیوں کا حامی محسوس کر رھا ھوں ۔میں خود کو قاتل کے روپ میں دیکھ رھا ھوں مگر میرے پاس ایسا بھی کوئ چانس نہیں کہ میں ان پرندوں کے خاندان تک۔ ان کے بچوں تک پنہچ سکوں ان سے معافی مانگ کر اپنا گناہ کبیرہ بخشوا سکوں ۔تاہم میں اپنے اس سنگین جرم کا مداوا اس طرح سے کرتا ھوں کہ آج کے بعد  میں کبھی کسی مہمان پرندے کو بالواسطہ یا بلا واسطہ قتل نہیں کروں گا جہاں تک ھو سکا میں ان کا تحفظ کروں گا ۔اور یہی نصیحت میرے ساتھ آئے ساتھیوں اورمیرے بیٹوں شیراز تحسین بخاری اور فراز تحسین بخاری کیلیے بھی ھے ۔

میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی میر دوست مزاری سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ ان مہمان پرندوں کے تحفظ کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں یہ ان کا علاقہ ھےاوریہ پرندے انھیں دعا دیں گے ۔

قارئین محترم ! رات ھو چکی ھے اورہم کشتی سے اتر کر کنارے کے قریب ہی سراج خان کے  دیسی  ڈیرے جسے مقامی زبان میں اوتاک کہتے ہیں پرآ چکے ہیں ۔ یہاں سراج خان کے گھر کے علاوہ دور دورتک کوی گھر نظر نہیں آ رھا۔

 دریائے سندھ پر آخری اور اکیلا گھر جبکہ چاروں طرف جنگل ہی جنگل عجیب سا خوف محسوس ھو رھا ھے۔میں نے اپنے میزبان سراج خان گوپانگ سے پوچھا کہ کچے میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ عام ھے تو یہاں کیا صورتحال ھے اور ھم یہاں کتنے محفوظ ہیں تو ھماری سامنے والی چارپائ پر بیٹھے سراج خان کے بزرگ والد چاچاوریام خان نے حقے کی لمبی گڑڑڑڑکے بعد نڑی سے منہ ھٹایا ناک اور منہ سے دھوئیں کا بادل چھوڑتے ھوئے  بولے کہ پہلے تو حالات بڑے خراب تھے مگر اب حالات بہتر ہیں ان کا کہنا تھا کہ جب سے روجھان سرکل میں ڈی ایس پی شہنشاہ چانڈیہ نے چارج سنبھالا ھے تب سے صورتحال مکمل کنٹرول میں ھے اور اب دن ھو یا رات کسی کو جرات نہیں ھوتی کہ وہ کوئ حرکت کرے ۔میں نے پوچھا چاچا اس افسر کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ھے کہ اس کے آتے ہی امن قائم ھوگیا ۔توچاچے وریام خان نے بتایاکہ شریفوں کیلیے شریف اوربدمعاشوں کیلیے شہنشاہ چانڈیہ سے بڑا کوئ بدمعاش نہیں اسکا نام سنتے ہی بڑے بڑے بدمعاشوں کی ''کانپیں ٹانگ "جاتی ھیں۔ ۔یہ سن کر ھم نے اطمینان کا سانس لیا کہ چلیں یہ تو تسلی ھوئ کہ ھم یہاں غیر محفوظ نہیں ۔ھم تو ہمیشہ اپنی ہنجاب پولیس کو کوستے رہتے ہیں  مگر پنجاب پولیس میں ایسے افسران بھی ہیں جو کسی نعمت سے کم نہیں مگرافسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ شہنشاہ چانڈیہ جیسے میرٹ پسنداور فرض شناس  افسران اس سسٹم میں مس فٹ ہیں کیونکہ ایسےافسران فرائض کی انجام دہی میں سیاسی یا کسی بھی طرح کی سفارش کو آڑے نہیں آنے دیتے۔ ھر طرح کے پریشر کو بالائے طاق رکھ کر اپنی دھن میں مست رہتے ھوئے کام کرنے میں لگے رہتے ہیں لہذا سسٹم کو اپنے اشاروں پر چلانے کا شوق رکھنے والی اشرافیہ کو ایسے لوگ پسند نہیں ھوتے اس لیے آئے روز یہ بیچارے معطلیوں یاتبادلوں کی زد میں رہتے ہیں کبھی کبھی تو انھیں سبق سکھانے کیلیے دور دراز اپنے گھر سے سینکڑوں میل دور پھینک دیا جاتا ھے۔شہنشاہ چانڈیہ بھی اکثراسی سزاکا شکار رہتاھے مگر باز پھر بھی نہیں آتا۔ابھی کچھ ماہ پہلے سابق آئ جی ساؤتھ کیپٹن ظفر اقبال نے انھیں جانوانڈھڑ گینگ کی گرفتاری کا ٹاسک دیکر اسے صادق آباد سرکل میں تعینات کردیا یہ اپنے ٹارگٹ کے قریب پنہچنے ہی والا تھا کہ جانو انڈھڑ نے اپنی برادری کے ایک بڑے رئیس صاحب سے شکایت کر ڈالی کہ یہ ہمیں مارنے پہ تلا ھوا ھے لہذا اسے یہاں سے ھٹایا جاے اور پھر اس بیچارے کو اپنے آبائ گھر سے سینکڑوں کلو میٹر دور چکوال میں پھینک دیا گیا اور پھرجب کچے کے حالات کنٹرول سے باہر ھو نے لگے تو انھیں مجبورا چکوال سے روجھان لانا پڑا۔یہی کچھ ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئ کے ساتھ بھی ھوا اسے بھی اپنے گھر سے 800 کلو میٹر دور پھینک کردیانتداری کا خوب مزہ چکھایا گیا۔ اس کا ایک ابنارمل بیٹا جسکی وہ خود دیکھ بھال کرتا تھا ۔باپ کے دور چلے جانے سے بہتر دیکھ بھال سے محروم ھوا اور ہھر اپنے والد کا راہ تکتے تکتے سسک سسک کر مر گیا۔ وہی بیٹا جو اسکی آنکھ کا تارا اور جگر کاٹکڑا تھا اس کی آخری رسومات میں بھی سسٹم کے ھاتھوں اسکامجبور باپ بڑی مشکل سے پنہچ پایا۔

پولیس حکام کو چاہیے کہ وہ ایسے افسران کی قدر کریں کیونکہ یہی لوگ اپنے محکمے کا خوبصورت چہرہ ھوا کرتے ہیں ۔امید ھے کہ آئ جی پنجاب راؤ سردار علی خان اور ایڈیشنل آئ جی ساؤتھ پنجاب احسان صادق اس پر ضرور توجہ دیں گے ۔

رات کے دو بج چکے ہیں چاند پورے جوبن پر آچکا ھے حقے کی گڑ گڑاہٹ ۔ ٹڈوں کی چرر چرر ۔مینڈکوں کی ٹر ٹراہٹ اور اوپر اڑتی ٹٹیری کی وقفے وقفے سے ھوٹ ٹی ٹی ھوٹ ٹی ٹی کی آواز بڑا دلفریب ماحول بنائے ھوئے ھے۔ھماری کچاری خوب رنگ جما چکی ھے لہذا اب  اس کچاری میں ھم تھوڑا علاقائ سیاسی رنگ بھی بھردیتے ہیں۔

اور سیاسی صورتحال یہ ھے کہ یہاں کےلوگ ڈپٹی سپیکر میردوست مزاری سے نالاں ہیں انکا کہنا ھے کہ اگلے الیکشن میں میر دوست مزاری کو ووٹ بالکل نہیں ملیں گے۔کیونکہ ان لوگوں کے بقول میر دوست مزاری ایک انتقامی سیاستدان ھے اور اس کے علاوہ ترقیاتی عمل  بھی نا ھونے کے برابر ھے عام آدمی ان سے رابطہ نہیں کرسکتا ۔جبکہ سابق ڈپٹی سپیکر مرحوم شوکت خان مزاری مرحوم عاطف خان مزاری کو یہ لوگ اب بھی فرشتے کے روپ میں محسوس کرتے ہیں ۔مرحوم عاطف مزاری کے زکر پر میں نے  اپنے اس دو روزہ تفریحی وزٹ کے دوران لوگوں کو آبدیدہ ھوتے ھوے دیکھاھے ۔علاقائ لوگوں کا کہنا ھے کہ عاطف مزاری کے چلے جانے کے بعد ھر غریب اور عام آدمی خود کو لاوارث اور تنہا محسوس کرتا ھے 

اب ان لوگوں کی نظریں شمشیر خان مزاری کی طرف لگی ھوئ ہیں ۔

رات کے تین بج رھے ہیں ۔حقے کے انگارے راکھ میں تبدیل ھورہے ہیں ۔دلفریب ماحول میں رنگ جماتی خوبصورت کچاری کو ختم کرنے پہ دل مان تو نہیں رھا مگر کیونکہ صبح اٹھنا بھی ھے اس لیے اب ھم سونے لگے ہیں۔

No comments:

Post a Comment